۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
عطر قرآن

حوزہ/ یہ آیت یہودیوں کے رویے پر تنبیہ ہے اور مسلمانوں کو بھی اس بات سے آگاہی فراہم کرتی ہے کہ دین میں تبدیلی، تحریف اور گستاخانہ کلمات اللہ کی ناراضگی اور لعنت کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایمان کی اساس اطاعت اور احترام میں ہے اور کفر و نافرمانی کے رویے انسان کو اللہ کی رحمت سے دور کرتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانْظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَٰكِنْ لَعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا. النِّسَآء(۴۶)

ترجمہ: یہودیوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو کلمات الٰہٰیہ کو ان کی جگہ سے ہٹا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے بات سنی اور نافرمانی کی اور تم بھی سنو مگر تمہاری بات نہ سنی جائے گی یہ سب زبان کے توڑ مروڑ اور دین میں طعنُہ زنی کی بنا پر ہوتا ہے حالانکہ اگر یہ لوگ یہ کہتے کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی آپ بھی سنئے اور نظر» کرم کیجئے تو ان کے حق میں بہتر اور مناسب تھا لیکن خدا نے ان کے کفر کی بنا پر ان پر لعنت کی ہے تو یہ ایمان نہ لائیں گے مگر بہت قلیل تعداد میں۔

موضوع:

یہ آیت میں یہودیوں کے بعض رویوں اور ان کی جانب سے آسمانی کتابوں میں تحریف کا ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے نافرمانانہ اور گستاخانہ رویوں پر تنقید کی اور ان کے حق میں بہتر رویہ کی تنبیہ کی۔

پس منظر:

یہ آیت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی، جہاں مسلمان یہودیوں کے ساتھ میل جول رکھتے تھے۔ کچھ یہودیوں نے اسلام کے احکام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی اور گستاخانہ انداز میں کلام کیا۔ یہ آیت ان کے نافرمانی اور دین میں بگاڑ کے رویے پر تنبیہ کے طور پر نازل ہوئی۔

تفسیر:

1. تحریفِ کلام: آیت میں کہا گیا ہے کہ بعض یہودی اللہ کے کلمات کو ان کی اصل جگہ سے ہٹا دیتے ہیں، یعنی آسمانی کتابوں میں تبدیلی کرتے ہیں۔ اس سے مراد ہے کہ وہ احکامات کو بدل کر یا توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو دھوکہ دے سکیں۔

2. گستاخانہ کلمات: آیت میں یہودیوں کے گستاخانہ کلمات کا ذکر ہے جیسے "سمعنا و عصینا" (ہم نے سنا اور نافرمانی کی)۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ گستاخی کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے کہ "راعنا" جو بظاہر تو احترام کا کلمہ لگتا تھا مگر ان کے انداز اور نیت میں توہین شامل تھی۔

3. بہتر رویہ کی نصیحت: اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ اگر وہ "سمعنا و اطعنا" (ہم نے سنا اور اطاعت کی) اور "انظرنا" (ہم پر کرم فرمائیں) جیسے الفاظ استعمال کرتے تو ان کے حق میں بہتر اور موزوں ہوتا۔

4. لعنت و کفر: ان کے اس رویے کی بنا پر اللہ نے ان پر لعنت کی ہے اور بتایا کہ ان میں سے بہت ہی کم لوگ ایمان لائیں گے، یعنی یہودیوں میں ایمان کی کمی اور نافرمانی کی عادت راسخ ہو چکی ہے۔

اہم نکات:

اللہ کے کلام میں تحریف کرنا ایک بہت بڑا جرم ہے جس کی سختی سے مذمت کی گئی ہے۔

گستاخانہ زبان استعمال کرنے پر اللہ تعالیٰ نے ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔

بہتر رویہ اور احترام کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور رسول کے احکامات کو سنا اور اطاعت کیا جائے۔

نتیجہ:

یہ آیت یہودیوں کے رویے پر تنبیہ ہے اور مسلمانوں کو بھی اس بات سے آگاہی فراہم کرتی ہے کہ دین میں تبدیلی، تحریف اور گستاخانہ کلمات اللہ کی ناراضگی اور لعنت کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایمان کی اساس اطاعت اور احترام میں ہے، اور کفر و نافرمانی کے رویے انسان کو اللہ کی رحمت سے دور کرتے ہیں۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر سورہ النساء

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .